اسلام آباد: وفاقی وزرا نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار کے عدالتی امور میں مداخلت اور دباؤ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے کو اتنا آگے لے کر نہ جایا جائے کیونکہ بات قومی سلامتی کی ہے۔
وزير اطلاعات عطااللہ تارڑ نے اسلام آباد ہائی كورٹ كے جج بابر ستار كے عدالتی امور ميں مداخلت اور دباؤ كے الزامات كو مسترد كرتے ہوئے كہا ہے كہ كسی نے يہ پيغام نہيں ديا كہ آپ پيچھے ہٹ جائيں البتہ صرف ان كيمرا بريفنگ كا كہا گيا تھا جس كی درخواست قومی سلامتی كي وجہ سے کی گئی اور اس پر كوئی سمجھوتہ نہيں كيا جائے گا۔
وزير قانون اعظم نذير تارڑ نے وزير اطلاعات عطااللہ تارڑ كے ہمراہ مشتركہ پريس كانفرنس كرتے ہوئے كہا كہ ابھی اٹارنی جنرل آف پاكستان منصور اعوان گفتگو كر كے گئے، انہوں نے ايك خط كے بارے ميں گفتگو كی اور كچھ وضاحتوں کے ساتھ اپنی رائے بھی دی۔
اسلام آباد ہائی كورٹ كے ایک معزز جج نے خط لكھا ہے كہ جس كے مندرجات سے يہ تاثر ديا گيا كہ انٹيلی جنس اور دفاعی ادارے ججوں كے كام ميں كسی قسم كی مداخلت كرنا چاہتے ہيں يا كرتے ہيں۔ وزير قانون نے كہا كہ ميرے ليے تكليف دہ چيز يہ ہے كہ اس طرح سے اس کی تشہير كی گئی جيسے عدليہ ميں مداخلت ہے، اس سے پہلے بھی چھ جج صاحبان كا ایک خط آيا اور ان كے خط پر حكومت نے فوری طور پر چيف جسٹس اور فل كورٹ كی ہدايات كو مدنظر ركھتے ہوئے فل كورٹ بنايا تھا تاكہ دودھ كا دودھ اور پانی كا پانی ہو۔
انہوں نے کہا کہ دھمکی آمیز خط کے معاملے پر سپريم كورٹ نے نوٹس ليا تھا اور اب يہ معاملہ زير سماعت ہے تو ميں اس پر زيادہ بات نہيں كروں گا۔ انہوں نے كہا كہ آزاد عدليہ ہی ملک كو آگے لے كر جاتی ہے ليكن ہميں دہشت گردی، امن و امان، معاشی اور سكيورٹی سميت جس قسم كے چيلنجوں اور ماحول كا سامنا ہے ايسہ صورت ميں تمام اداروں كو ایک دوسرے كو تھوڑی جگہ ديني چاہيے، لہذا سب اپنے اپنے دائرے ميں رہ كر كام كريں ۔
اس موقع پر وزير اطلاعات اعظم عطااللہ تارڑ نے كہا كہ اگر اٹارنی جنرل كی جانب سے ايک پيغام ديا جاتا ہے كہ ان كيمرا بريفنگ كی جائے تو اس پر سياق و سباق سے ہٹ كر ایک خط لكھ ديا جاتا ہے كہ مجھے كہا جا رہا ہے كہ ميں پيچھے ہٹ جاؤں، يہ حقيقت پر مبنی بات نہيں ہے، اگر ان كيمرا بريفنگ کی درخواست قومی سلامتی کی وجہ سے كی گئی تھی اور ميں واضح كردوں كہ قومی سلامتی پر كوئی سمجھوتہ نہيں كيا جائے گا۔
انہوں نے كہا كہ اس معاملے كو اتنا آگے لے كر مت جائيے کیونکہ بات قومی سلامتی کی ہے اور اس ایک معاملے كو لے كر قومی سلامتی پر سوال اٹھانا مناسب نہیں ہے، ميں سوشل ميڈيا پر ديكھ رہا تھا كہ زيريں عدالتوں كے ججوں نے چيف جسٹس كو خط لكھا ہے كہ ان پر سخت زبان ميں باقاعدہ دباؤ ڈالا جاتا ہے كہ فلاں كيس ميں فلاں فيصلہ كرو۔
ان كا كہنا تھا كہ قومی سلامتی كے معاملات كو خطوط كے ذريعے اجاگر نہيں كرنا چاہيے، كوئی معاملہ ڈسكس كرنا ہو تو چيف جسٹس فل كورٹ بلا سكتے ہيں، جس چيف جسٹس سے روزانہ ملاقات ہوتی ہو اس كو خط لكھنا معاملے كو متنازع بنانے والی بات ہے۔
عطااللہ تارڑ نے كہا كہ قومي سلامتی پر كوئی سمجھوتہ نہيں كيا جائے گا اور اگر اس مسئلے كو لے كر قومی سلامتی پر سوال اٹھايا جائے گا تو يہ مناسب نہيں ہو گا۔ ميں سمجھتا ہوں كہ تناؤ كو كم كرنا ہو گا اور تمام اداروں كو اس پر مل جل كر كام كرنا ہو گا۔